اب کے تصویر بناتے ہوئے یہ دھیان رہے
کسی صورت کے نکل آنے کا امکان رہے
کل اثاثے کی میاں ایک ہی گٹھڑی نہ بنا
تا کہ ہر ٹوٹی ہوئی چیز کی پہچان رہے
تجھ سے درکار محبت ہے محبت کے عوض
میں نہیں چاہتا تجھ پر کوئی احسان رہے
موسمِ ہجر میں پھولوں کی عملداری نہ تھی
اک اذیت میں مِری میز پہ گلدان رہے
جس طرح زندگی بیمار کا بستر ہو فراغ
آدمی اپنی ہی کروٹ سے پریشان رہے
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment