سیدھا سا دل تھا پڑ گیا اس کج ادا کے ہاتھ
اور میں غریب رہ گیا بس مل ملا کے ہاتھ
باتیں بنا رہے ہیں وہ ایسی بنا کے ہاتھ
جیسے حلیم گھوٹ رہے ہوں چلا کے ہاتھ
تہذیب کے خلاف جو حرکت تھی اب کہاں
اظہارِ عشق کرتے ہیں اب تو دبا کے ہاتھ
چلتی ہے کس طرح انہیں چُھوتی ہے کس طرح
بادِ صبا کے پاؤں نہ بادِ صبا کے ہاتھ
ضدی بہت ہیں آتے ہیں مشکل سے راہ پر
وہ ناک کو پکڑتے ہیں لیکن گھما کے ہاتھ
باز آئے عاشقی سے انہیں دور سے سلام
سر کی طرف بڑھاتے ہیں وہ تو کھجا کے ہاتھ
زلفِ دو تا تو تمہاری کوئی کور چشم ہے
دل کی بٹیر کیوں لگے زلفِ دو تا کے ہاتھ
ان سے ملاؤ ہاتھ تو مل جائیں رات دن
اتنے سیاہ ہیں میرے لیلیٰ نما کے ہاتھ
وہ تو ظریف چل دئیے ٹا ٹا کیے بغیر
ہم دیکھتے ہی رہ گئے ان کو ہلا کے ہاتھ
ظریف جبلپوری
No comments:
Post a Comment