باعثِ وصفِ نظر آگ سی لگ جاتی ہے
عشق کے زیرِ اثر آگ سی لگ جاتی ہے
جن چراغوں کو شبِ وصل بُجھا دیتی ہوں
ان کو با وقتِ سحر آگ سی لگ جاتی ہے
میں وہ سُوکھی ہوئی ٹہنی ہوں جسے پہلو میں
دیکھ کر شاخِ ثمر آگ سی لگ جاتی ہے
کفِ افسوس کہیں سنگِ ملامت ہی نہ ہو
ہاتھ ملنے سے اگر آگ سی لگ جاتی ہے
ٹکٹکی باندھ کے تصویر تِری دیکھتی ہوں
پھر جدھر دیکھوں ادھر آگ سی لگ جاتی ہے
آتشیں سانس کی ہے کار گزاری کہ یہ دل
جب بُجھے، بارِ دِگر آگ سی لگ جاتی ہے
اپسرا فصلِ سخن کو نہ دِکھا شعلۂ فن
پاس رکھ اپنا ہُنر آگ سی لگ جاتی ہے
اپسرا گل
No comments:
Post a Comment