صد شکر کہ نصیب ہوئے دن بہار کے
ہم کو سکوں ملا ہے خزاں کو گزار کے
سہنی پڑیں گی سختیاں صحرائے عشق میں
سنتے ہیں راستے ہیں کٹھن کُوئے یار کے
اس کو جہاں میں اور کہیں کیا سکوں ملے
دیدار ہو سکیں نہ جسے رُوئے یار کے
ملتا ہے ان کی یاد سے دل کو مِرے قرار
ہر وقت میرا دل ہے تصور میں یار کے
ماں باپ، میرے بھائی بہن اور اساتذہ
انعام ہیں مجھے مِرے پروردگار کے
عاجز، غریب، مفلس و نادار ہیں تو کیا
سودے نہیں کیے کبھی ہم نے وقار کے
عاجز بھوپالی
No comments:
Post a Comment