Friday 30 September 2022

ایک عالم میں کہاں سب کی بسر ہوتی ہے

 ایک عالم میں کہاں سب کی بسر ہوتی ہے

شام، پروانوں کی نظروں میں سحر ہوتی ہے

دل کو بے لفظ پیاموں کی خبر ہوتی ہے

ہائے! کیا چیز محبت کی نظر ہوتی ہے

زندگی کو نہیں تسکینِ محبت حاصل

یوں تو ہونے کو بہر حال بسر ہوتی ہے

وہ ملے مجھ سے تو ان کی بھی بھر آئیں آنکھیں

دل ہی کو، دل کی تباہی کی خبر ہوتی ہے

چِھین لیتا ہے خدا، اس کا سکونِ خاطر

جس کو تسکین مِری مدِ نظر ہوتی ہے

انقلابات و حوادث سے نہ ہو بے پروا

کہِیں اک حال میں بھی عمر بسر ہوتی ہے

ہاے وہ ان کا تغافل، وہ مِری مجبوری

صلح ہوتی نہیں منظور، مگر ہوتی ہے

محو ہیں جو تِرے جلوؤں میں انہیں کیا معلوم

صبح ہوتی ہے کدھر، شام کدھر ہوتی ہے

ایک دل دوسرے دل کا ہے یہاں محرمِ راز

ورنہ دنیا میں کسے، کس کی خبر ہوتی ہے

خوش ہوں سیماب میں تنقید سے کم بِینوں کی

کچھ بلند اور مِری فکر و نظر ہوتی ہے


سیماب اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment