کوئی خواب تھا کہ سراب تھا جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
یا وہ آنسوؤں کا چناب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
یہ جو بارشیں تھیں بہار کی، وجہ شکل خم تھی خمار کی
رواں آنکھ سے وہی آب تھا جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
نہ میں رو سکا نہ میں سو سکا کئی رتجگے مِرے ساتھ تھے
تِری دید کا ہی عذاب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
میں جدھر گیا میری آنکھ میں کوئی چیز تھی میرے ساتھ ساتھ
تیرے عکس کا ہی حباب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
کئی بار میں نے پڑھا اسے، کئی بار میں نے لکھا اسے
تیرے زیست کا ہی باب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
وہ خیال تھا کہ جمال تھا تجھے کیا خبر میرے ہمنشیں
کئی روز سے یہی خواب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
میری آنکھ میں جو ملال تھا میرا اپنا ہی تو یہ مال تھا
وہ تو دل ہی خانہ خران تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں
شہزاد بیگ
No comments:
Post a Comment