دل کا کھوج نہ پایا ہرگز دیکھا کھول جو قبروں کو
جیتے جی ڈھونڈے سو پاوے خبر کرو بے خبروں کو
توشک بالا پوش رضائی ہے بھولے مجنوں برسوں تک
جب دِکھلاوے زُلف سجن کی بن میں آوتے ابروں کو
کافر نفس ہر ایک کا ترسا زر کوں پایا بختوں سیں
آتش کی پوجا میں گزری عمر تمام ان گبروں کو
مرد جو عاجز ہو تن من سیں کہے خوش آمد باور کر
محتاجی کا خاصا ہے روباہ کرے ہے ببروں کو
وعدہ چوک پھر آیا ناجی درس کی خاطر پھڑکے مت
چُھوٹ گلے تیرے اے ظالم صبر کہاں بے صبروں کو
ناجی شاکر
No comments:
Post a Comment