Sunday 30 October 2022

آنکھوں کو اپنی بھینٹ چڑھانے کے باوجود

 آنکھوں کو اپنی بھینٹ چڑھانے کے باوجود

کیوں تیرگی ہے دیپ جلانے کے باوجود

پیروں کے اضطراب کا قصہ نہ پوچھیے

کچھ لوگ دربدر ہیں ٹھکانے کے باوجود

رشتہ مِرا فرات سے کچھ ایسا جڑ گیا

بجھتی نہیں ہے پیاس بجھانے کے باوجود

تیرے تمام حرف مِرے دل پہ نقش ہیں

سارے خطوں کو آگ لگانے کے باوجود

دو لفظ میرے حق میں کسی نے نہیں کہے

گونگے تھے لوگ باتیں بنانے کے باوجود

بنیاد میں تھا خونِ جگر اس لیے امین

اب تک کھڑا ہوا ہوں میں ڈھانے کے باوجود


امین اوڈیرائی

No comments:

Post a Comment