Sunday, 30 October 2022

تنہائیوں کے روگ کو پالا نہیں گیا

تنہائیوں کے روگ کو پالا نہیں گیا

ہم سے تمہارا ہجر سنبھالا نہیں گیا

قبضہ وہ کر کے بیٹھ گیا ایسا دوستو

اک دکھ کو شہرِ جاں سے نکالا نہیں گیا

حیلے ہزار ہم نے کیے روز و شب مگر

غم کو خوشی کے روپ میں ڈھالا نہیں گیا

تم نے بنا دیا ہے مجھے راستوں کی دھول

مجھ سے تمہارا نام اچھالا نہیں گیا

ہم نے بھی دل کی بات کسی سے نہیں کہی

تم کو بھی امتحان میں ڈالا نہیں گیا

کہنے کو روشنی کے تمنائی تھے امین

پل بھر کو جن کے ساتھ اجالا نہیں گیا


امین اوڈیرائی

No comments:

Post a Comment