تنہائیوں کے روگ کو پالا نہیں گیا
ہم سے تمہارا ہجر سنبھالا نہیں گیا
قبضہ وہ کر کے بیٹھ گیا ایسا دوستو
اک دکھ کو شہرِ جاں سے نکالا نہیں گیا
حیلے ہزار ہم نے کیے روز و شب مگر
غم کو خوشی کے روپ میں ڈھالا نہیں گیا
تم نے بنا دیا ہے مجھے راستوں کی دھول
مجھ سے تمہارا نام اچھالا نہیں گیا
ہم نے بھی دل کی بات کسی سے نہیں کہی
تم کو بھی امتحان میں ڈالا نہیں گیا
کہنے کو روشنی کے تمنائی تھے امین
پل بھر کو جن کے ساتھ اجالا نہیں گیا
امین اوڈیرائی
No comments:
Post a Comment