آنکھوں کو اپنی بھینٹ چڑھانے کے باوجود
کیوں تیرگی ہے دیپ جلانے کے باوجود
پیروں کے اضطراب کا قصہ نہ پوچھیے
کچھ لوگ دربدر ہیں ٹھکانے کے باوجود
رشتہ مِرا فرات سے کچھ ایسا جڑ گیا
بجھتی نہیں ہے پیاس بجھانے کے باوجود
تیرے تمام حرف مِرے دل پہ نقش ہیں
سارے خطوں کو آگ لگانے کے باوجود
دو لفظ میرے حق میں کسی نے نہیں کہے
گونگے تھے لوگ باتیں بنانے کے باوجود
بنیاد میں تھا خونِ جگر اس لیے امین
اب تک کھڑا ہوا ہوں میں ڈھانے کے باوجود
امین اوڈیرائی
No comments:
Post a Comment