Wednesday, 26 October 2022

عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی

 عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی

مِرا وجود ہے پرچھائیوں سے آگے بھی

کسی کا حسن فریب‌ِ نشاط دیتا ہے

نگارِ وقت کی انگڑائیوں سے آگے بھی

چلا ہے تلخ حقائق کا کارواں جیسے

مِرے یقین کی بینائیوں سے آگے بھی

جہاں وجود بھی خود کو سمیٹ لیتا ہے

وہ اک مقام ہے تنہائیوں سے آگے بھی

نہ جانے کیوں مجھے احساس یہ ستاتا ہے

کہ کوئی اور ہے پرچھائیوں سے آگے بھی

کوئی سفر میں ہے آصف مِرے علاوہ بھی

مِرے وجود کی سچائیوں سے آگے بھی


آصف دسنوی

No comments:

Post a Comment