گیت
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
وہ تو رنگیں خیال ہوتے ہیں
آج اس راہ پر کل ہے اس راہ پر
موسموں کی طرح بادلوں کی طرح
پاس رہ کر بھی دورر ہوتے ہیں
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
پیار کی دھوپ میں کوئی چھایا نہیں
یہ شجر اور ہے اس کا سایا نہیں
پھولوں سے بھی حسیں خار ہوتے ہیں
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
خوشبوؤں کا سفر دل میں پھر کیوں ہے ڈر
اپنی جاں کی طرح اک پناہ کی طرح
اپنے ہو کر بھی غیر ہوتے ہیں
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
وہ تو رنگیں خیال ہوتے ہیں
خاور کیانی
No comments:
Post a Comment