Saturday, 29 October 2022

مجھ میں شعلہ سا یہ تو نے جو بھڑکتا دیکھا

 مجھ میں شعلہ سا یہ تُو نے جو بھڑکتا دیکھا

اس نے اے حُسن تِری چاہ میں کیا کیا دیکھا

تُو بنا سوہنی مہِیوال یہی تھا برسوں

تُو جو تھا ہیر رہا یہ تِرا رانجھا برسوں

تُو زلیخا ہے اگر یوسفِ کنعاں یہ ہے

تُو خریدار ہے جِس کا وہی انساں یہ ہے

تُو جو عذرا تھا یہ وامق کی سی تصویر بنا

اور تُو ہاتھ جو آیا تِری تقدیر بنا

اس نے ہر وصل کی شب تھا تجھے بے باک کیا

تُو نے جلنے سے بچایا جو اسے خاک کِیا

تُجھ کو الفت میں اسی کی ہیں کئی روگ ملے

پِھر اسے تیرے تصور میں کئی لوگ ملے

اے مِری جانِ غزل تیری ضرورت ہے ابھی

عہدِ حاضر کو بچانا تِری صورت ہے ابھی

کاش یہ پیار بہ ہر طور مکمل ہو جائے

یا کسی روز سراپا تِرا بے کل ہو جائے


عبدالرزاق بے کل

No comments:

Post a Comment