Saturday 29 October 2022

حالت بیمار غم پر جس کو حیرانی نہیں

حالتِ بیمارِ غم پر جس کو حیرانی نہیں

اصل میں اس آدمی میں خُوئے انسانی نہیں

ایسی بے دردی سے اس کو مت بہاؤ خاک پر

خون انساں، خون انساں ہے کوئی پانی نہیں

جس کی خوشبو سے معطر رات بھر رہتا تھا میں

میرے گھر کے پاس اب وہ رات کی رانی نہیں

میں تعجب میں ہوں یہ کیسا زمانہ آ گیا

چاند میں ٹھنڈک نہیں سورج میں تابانی نہیں

پھر تِرے اوپر نہ ٹُوٹے کیوں عذابوں کا پہاڑ

تیرے اندر اک ذرا بھی بُوئے ایمانی نہیں

یوں نہ اپنے چاہنے والے کو رُسوا کیجئے

یہ تو انداز سلوک دلبر جانی نہیں

کیوں نہیں طوفاں کا منظر تیری چشم شوق میں

کیوں تِرے دریائے دل میں اب وہ طُغیانی نہیں

مطمئن ہے عشق بھی شامِ الم کے باوجود

حسن کے چہرے پہ بھی عکسِ پریشانی نہیں

عشق میں بھی تُو نہ پائے گا کہیں میرا جواب

جانِ من! جو حسن میں کوئی تِرا ثانی نہیں

اے ظفر پالے ہوئے ہیں وہ بھی دنیا کی ہوس

اب فقیرِ عشق میں بھی بُوئے عرفانی نہیں


ظفر انصاری

No comments:

Post a Comment