تنہا کھڑے ہیں ہم سرِ بازار کیا کریں
کوئی نہیں ہے غم کا خریدار کیا کریں
اے کم نصیب دل تُو مگر چاہتا ہے کیا
سنیاس لے لیں، چھوڑ دیں گھر بار کیا کریں
الجھا کے خود ہی زیست کے اک ایک تار کو
خود سے سوال کرتے ہیں ہر بار، کیا کریں
اک عمر تک جو زیست کا حاصِل بنی رہیں
پامال ہو رہی ہیں وہ اقدار، کیا کریں
ہے پوری کائنات کا چہرہ دھواں دھواں
غزلوں میں ذکرِ یارِ طرحدار کیا کریں
شبنم شکیل
No comments:
Post a Comment