Tuesday 25 October 2022

کیسی افتاد ہے کہ ہوش میں آنے لگا ہے

 کیسی افتاد ہے کہ ہوش میں آنے لگا ہے

یہ مِرا شہر مجھے آنکھیں دکھانے لگا ہے

یوں بھی تنہائی یہ باہر سے نہیں آ سکتی

کوئی مجھ سے ہی مِرے بھید چھپانے لگا ہے

کچھ بھی ہو جائے یہ جنگل ہے یہ جنگل رہے گا

تُو یہاں پھر سے کوئی شہر بسانے لگا ہے

بارہا کبھی گھر کو کبھی باندھا کبھی کھولا ہے

اے مِرے دل تو یہاں کس کے دھیانے لگا ہے

میں یہاں اپنی جراحت کے لیے آیا تھا

کیا رفوگر ہے مجھے زخم دکھانے لگا ہے


عابد خورشید

No comments:

Post a Comment