کیسی افتاد ہے کہ ہوش میں آنے لگا ہے
یہ مِرا شہر مجھے آنکھیں دکھانے لگا ہے
یوں بھی تنہائی یہ باہر سے نہیں آ سکتی
کوئی مجھ سے ہی مِرے بھید چھپانے لگا ہے
کچھ بھی ہو جائے یہ جنگل ہے یہ جنگل رہے گا
تُو یہاں پھر سے کوئی شہر بسانے لگا ہے
بارہا کبھی گھر کو کبھی باندھا کبھی کھولا ہے
اے مِرے دل تو یہاں کس کے دھیانے لگا ہے
میں یہاں اپنی جراحت کے لیے آیا تھا
کیا رفوگر ہے مجھے زخم دکھانے لگا ہے
عابد خورشید
No comments:
Post a Comment