Monday, 31 October 2022

سمندر کے کنارے چاندنی راتوں میں بیٹھا

 سمندر اور تشنگی


سمندر کے کنارے

چاندنی راتوں میں بیٹھا

ان حسیں شاموں کو اکثر یاد کرتا ہوں

وہ شامیں جب وہ میرے ساتھ ہوتی تھی

سمندر کی نہایت شوخ لہروں میں

اکٹھے ہم بھی پتھر پھینکتے تھے

اور پھر ہم کھلکھلا کر ہنس دیتے تھے

مگر اب چاندنی راتوں میں جب میں

سیر کو جاتا ہوں تنہائی کا کمبل اوڑھ لیتا ہوں

سمندر کے کنارے جب بھی گہری سوچ میں ڈوبوں

اداسی خامشی سے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے

مِرے کندھے پہ ہمدردی سے اپنا ہاتھ رکھتی ہے

وہ کچھ کہتی نہیں لیکن مجھے معلوم ہے وہ

اس فضا اور میری آنکھوں کی نمی محسوس کرتی ہے

نمی جو مدتوں کے بعد بھی مجھ کو بہت مغموم رکھتی ہے


خالد سہیل

No comments:

Post a Comment