سمندر اور تشنگی
سمندر کے کنارے
چاندنی راتوں میں بیٹھا
ان حسیں شاموں کو اکثر یاد کرتا ہوں
وہ شامیں جب وہ میرے ساتھ ہوتی تھی
سمندر کی نہایت شوخ لہروں میں
اکٹھے ہم بھی پتھر پھینکتے تھے
اور پھر ہم کھلکھلا کر ہنس دیتے تھے
مگر اب چاندنی راتوں میں جب میں
سیر کو جاتا ہوں تنہائی کا کمبل اوڑھ لیتا ہوں
سمندر کے کنارے جب بھی گہری سوچ میں ڈوبوں
اداسی خامشی سے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے
مِرے کندھے پہ ہمدردی سے اپنا ہاتھ رکھتی ہے
وہ کچھ کہتی نہیں لیکن مجھے معلوم ہے وہ
اس فضا اور میری آنکھوں کی نمی محسوس کرتی ہے
نمی جو مدتوں کے بعد بھی مجھ کو بہت مغموم رکھتی ہے
خالد سہیل
No comments:
Post a Comment