یا رب وہ تھک نہ جائیں آنسو بہا بہا کر
روتے ہیں جو گلے سے مجھ کو لگا لگا کر
میری ہی داستاں ہے یہ بھی نہ کہہ سکوں میں
مجھ کو سنا رہے ہیں اتنی بڑھا بڑھا کر
اک رات میں لٹائی ساری وفا کی دولت
جوڑی تھی یہ رقم بھی کتنی بچا بچا کر
ہو دوستوں میں شاید اک آدھ کوئی دشمن
مقتل میں دیکھتا ہوں گردن گھما گھما کر
کچھ بھی نہیں ہے لیکن اک آئینہ رکھا ہے
سارے گزر رہے ہیں نظریں بچا بچا کر
داغِ مفارقت کے سب نقش بدنما تھے
پر خوشنما کیے ہیں میں نے سجا سجا کر
یہ شکر ہے خدا کی رحمت کا آسرا ہے
ورنہ تو مار ڈالے واعظ ڈرا ڈرا کر
ظلمت کدے کی رونق میری انا کا سورج
میں تھک چکا ہوں اختر اس کو بجھا بجھا کر
جنید اختر
No comments:
Post a Comment