اپنی بنیاد اٹھاتے رہے تعمیر کے ساتھ
اس لیے خواب بھی آئے مجھے تعبیر کے ساتھ
جانے والوں نے کبھی حال نہ پوچھا آ کر
چٹھیاں روز ملیں خون کی تحریر کے ساتھ
کھول کرکون گیا پاؤں کی زنجیروں کو
اور میں دوڑ پڑا تھا اسی زنجیر کے ساتھ
ایک آواز سی آتی رہی آوازکے بعد
بات کرنے لگاجب میں تِری تصویر کے ساتھ
ہم کو زخموں کی حفاظت کا بھرم رکھنا تھا
ہم کو مرہم بھی لگایا گیا شمشیر کے ساتھ
جھنگ کی عظمت مِری توقیر بڑھا دیتی ہے
عشق زندہ ہے کہانی میں رضا ہیر کے ساتھ
ساجد رضا
No comments:
Post a Comment