Wednesday, 26 October 2022

ایسی تنہائی پتہ اپنا کہاں پاتے ہیں ہم

 ایسی تنہائی، پتہ اپنا کہاں پاتے ہیں ہم

ایسا سناٹا خود اپنے سے بھی گھبراتے ہیں ہم

آرزوؤں کو ہمالہ سے سوا پاتے ہیں ہم

اپنا یہ عالم، ہواؤں پر اڑے جاتے ہیں ہم

اجنبی کی اجنبی سے بڑھ رہی ہیں قربتیں

آشنا کو آشنا سے بدگماں پاتے ہیں ہم

مشکلوں کی اتنی عادی ہو گئی ہے زندگی

ایک ٹلتی ہے تو پھر کوئی اٹھا لاتے ہیں ہم

رنگِ گل، رنگِ شفق، سب ہی مئے دو آتشہ

اپنے دل کو اب تصور ہی سے بہلاتے ہیں ہم

بڑھ گئی ہے زیست کے صحرا میں اتنی تشنگی

سب کے لب کو اپنی شہ رگ پر دھرا پاتے ہیں ہم

فتح کے نشے میں وہ آگے بڑھیں، نزدیک آییں

عشق کی بازی میں قصداً مات کھا جاتے ہیں ہم

شامِ وحشت میں کوئی نوشاد نوری سے کہے

احترامِ فن میں یکتا آپ کو پاتے ہیں ہم


نوشاد نوری 

No comments:

Post a Comment