Wednesday, 26 October 2022

خون بے بس کا بہائیں تو غضب ہوتا ہے

 خون بے بس کا بہائیں تو غضب ہوتا ہے

بستیاں ان کی جلائیں تو غضب ہوتا ہے

حد سے بڑھ جائیں خطائیں تو غضب ہوتا ہے

نہ ملیں اس پہ سزائیں تو غضب ہوتا ہے

آگ گلشن میں لگاتے ہیں جو تقریروں سے

گیت الفت کے وہ گائیں تو غضب ہوتا ہے

تُو نے سوچا نہیں ظالم کبھی مظلوموں کی

عرش جاتی ہیں صدائیں تو غضب ہوتا ہے

شیش محلوں میں کبھی بیٹھ کے سوچا تم نے

غربتیں ہاتھ بڑھائیں تو غضب ہوتا ہے

وہ جو فٹپاتھ پہ جھگّی میں بسر کر تے ہیں

داستاں اپنی سنائیں تو غضب ہوتا ہے

کسی عصمت سے نہ کھیلو تمہیں معلوم نہیں

جب اترتی ہیں ردائیں تو غضب ہوتا ہے

کسی نادار کا اکلوتا ہو بچہ بیمار

اور منہگی ہوں دوائیں تو غضب ہوتا ہے

اعلیٰ منصب پہ جو فائز ہیں حکومت میں یہاں

وہ ہی پبلک کو ستائیں تو غضب ہوتا ہے

وہ جو لاچار ہیں مجبور ہیں بے بس ہیں سراج

ان کا حق چھین کے کھائیں تو غضب ہوتا ہے


سراج الدین گلاؤٹھوی

No comments:

Post a Comment