خون بے بس کا بہائیں تو غضب ہوتا ہے
بستیاں ان کی جلائیں تو غضب ہوتا ہے
حد سے بڑھ جائیں خطائیں تو غضب ہوتا ہے
نہ ملیں اس پہ سزائیں تو غضب ہوتا ہے
آگ گلشن میں لگاتے ہیں جو تقریروں سے
گیت الفت کے وہ گائیں تو غضب ہوتا ہے
تُو نے سوچا نہیں ظالم کبھی مظلوموں کی
عرش جاتی ہیں صدائیں تو غضب ہوتا ہے
شیش محلوں میں کبھی بیٹھ کے سوچا تم نے
غربتیں ہاتھ بڑھائیں تو غضب ہوتا ہے
وہ جو فٹپاتھ پہ جھگّی میں بسر کر تے ہیں
داستاں اپنی سنائیں تو غضب ہوتا ہے
کسی عصمت سے نہ کھیلو تمہیں معلوم نہیں
جب اترتی ہیں ردائیں تو غضب ہوتا ہے
کسی نادار کا اکلوتا ہو بچہ بیمار
اور منہگی ہوں دوائیں تو غضب ہوتا ہے
اعلیٰ منصب پہ جو فائز ہیں حکومت میں یہاں
وہ ہی پبلک کو ستائیں تو غضب ہوتا ہے
وہ جو لاچار ہیں مجبور ہیں بے بس ہیں سراج
ان کا حق چھین کے کھائیں تو غضب ہوتا ہے
سراج الدین گلاؤٹھوی
No comments:
Post a Comment