Thursday 27 October 2022

کر دیتے ہیں جو پیار میں غرقاب ترے خواب

 کر دیتے ہیں جو پیار میں غرقاب تِرے خواب

ہیں میرے لیے عشق کی محراب ترے خواب

یادوں کی حسیں رات میں مہتاب ترے خواب

ترسیلِ محبت کے سبھی باب ترے خواب

اب تجھ سے ملاقات کی صورت نہیں کوئی

ہیں میرے لیے جینے کے اسباب ترے خواب

جو بزم محبت کے ستاروں سے سجی ہے

اس بزمِ محبت کے ہیں آداب ترے خواب

جو ہجر کی راتوں میں بہے آنکھ سے آنسو

ان آنسوؤں میں ہو گئے غرقاب ترے خواب

صحرا میں بگولوں سے بھٹکتے ہیں خیالات

آنکھوں میں مِری ہو گئے گرداب ترے خواب

کیوں مجھ سے ہے ناراض خطا کیا ہوئی مجھ سے

کیوں میرے لیے ہو گئے کمیاب ترے خواب

تو جب سے مرے یار رقیبوں سے ملا ہے

آنکھوں میں مری ہو گئے تیزاب ترے خواب

جی بھر کے سراج اس نے مجھے دیکھا سرِ بزم

لگتا ہے کہ پھر ہو گئے شاداب ترے خواب


سراج الدین گلاؤٹھوی

No comments:

Post a Comment