تصادم
صرف اپنا زہر جس کو خامشی کہتی ہو تم
صرف اپنی آگ جس کو گفتگو کہتے ہیں ہم
صرف اپنا درد جس کو روشنی کہتی ہو تم
صرف اپنا زخم جس کو جستجو کہتے ہیں ہم
اور پھر ماتھے کے پتھر پر ابھرتی ہیں رگیں
یہ کوئی حساس جذبہ ہے، شکن سے ماورا
اور پھر مژگاں تلے گر گر کے جم جاتی ہے راکھ
یہ کوئی گہرا تاثر ہے، تھکن سے ماورا
ہر جگہ مٹی کی پیشانی پہ سونے کی لکیر
اور آنکھوں کے سیہہ غاروں میں ہیرے کی کنی
اپنی مٹھی میں سمیٹے نصف پیشانی کو رات
نصف چہرے پر فروزاں نیم شب کی چاندنی
کس قدر گہرا تضاد چشم و دل رکھتی ہو تم
کس قدر گہرا تضاد نطق و لب رکھتے ہیں ہم
اس تلاطم میں بھی ربط آب و گل رکھتی ہو تم
اس تصادم میں بھی جینے کی طلب رکھتے ہیں ہم
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment