Friday 28 October 2022

صرف اپنا زہر جس کو خامشی کہتی ہو تم

 تصادم


صرف اپنا زہر جس کو خامشی کہتی ہو تم

صرف اپنی آگ جس کو گفتگو کہتے ہیں ہم

صرف اپنا درد جس کو روشنی کہتی ہو تم

صرف اپنا زخم جس کو جستجو کہتے ہیں ہم

اور پھر ماتھے کے پتھر پر ابھرتی ہیں رگیں

یہ کوئی حساس جذبہ ہے، شکن سے ماورا

اور پھر مژگاں تلے گر گر کے جم جاتی ہے راکھ

یہ کوئی گہرا تاثر ہے، تھکن سے ماورا

ہر جگہ مٹی کی پیشانی پہ سونے کی لکیر

اور آنکھوں کے سیہہ غاروں میں ہیرے کی کنی

اپنی مٹھی میں سمیٹے نصف پیشانی کو رات

نصف چہرے پر فروزاں نیم شب کی چاندنی

کس قدر گہرا تضاد چشم و دل رکھتی ہو تم

کس قدر گہرا تضاد نطق و لب رکھتے ہیں ہم

اس تلاطم میں بھی ربط آب و گل رکھتی ہو تم

اس تصادم میں بھی جینے کی طلب رکھتے ہیں ہم


نوشاد نوری 

No comments:

Post a Comment