Friday, 28 October 2022

میں کہ اک شادی شدہ عورت ہوں

عورت


میں کہ اک شادی شدہ عورت ہوں

میں کہ اک عورت ہوں

ایک ایرانی عورت

رات کے آٹھ بجے ہیں

یہاں خیابان سہروردی شمالی پر

باہر جا رہی ہوں

روٹیاں خریدنے کو

نہ میں سجی بنی ہوں

نہ میرے کپڑے جاذب نظر ہیں

مگر یہاں سر عام

یہ ساتویں گاڑی ہے

مرے پیچھے پڑی ہے

کہتے ہیں، شوہر ہے یا نہیں

میرے سنگ سیر کرو

جو بھی چاہو گی تجھے لے دوں گا

یہاں تندورچی ہے

وقت ساڑھے آٹھ ہوا ہے

آٹا گوندھ رہا ہے مگر پتہ نہیں کیوں 

مجھے دیکھ کر آنکھیں مار رہا ہے

نان دیتے ہوئے اپنا ہاتھ 

مِرے ہاتھ سے مس کر رہا ہے

یہ تہران ہے

سڑک عبور کی تو گاڑی سوار مِری طرف آیا

گاڑی سوار قیمت پوچھ رہا ہے

رات کے کتنے؟

میں نہیں جانتی تھی راتوں کی قیمت کیا ہے

یہ ایران ہے

میری ہتھیلیاں نم ہیں

لگتا ہے بول نہیں پاوں گی

ابھی میری خجالت اور رنج کا پسینہ 

خشک نہیں ہوا تھا

کہ گھر پہنچ گئی

انجنیئر کو دیکھا

ایک شریف مرد جو دوسری منزل پر

بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا ہے

سلام آقائے مہندس

بیگم ٹھیک ہیں؟

آپ کی پیاری بیٹی ٹھیک ہے

والسلام، تم ٹھیک ہو؟

خوش ہو؟

نظر نہیں آتی ہو؟

سچ تو یہ ہے آج رات میرے گھر کوئی نہیں

اگر ممکن ہے تو آ جاؤ

نیلوفر کا کمپیوٹر ٹھیک کر دو

بہت گڑ بڑ کرتا ہے

یہ میرا موبائل ہے

آرام سے جتنی بات چاہے کرنا

میں دل مسوستے ہوئی کہتی ہوں، بہت اچھا

اگر وقت ملا تو ضرور

یہ سر زمین اسلام ہے

یہ امام رضا اور امام زادوں کی سر زمین ہے

یہاں اسلامی قوانین رائج ہیں

مگر یہاں جنسی مریضوں نے 

مادہ بکھیر رکھا ہے

دین، نہ مذہب، نہ قانون

اور نہ تمارا نام حفاظت کر سکتا ہے

یہ ہے اسلامی جمہوریہ

اور میں ایک عورت ہوں

میرا شوہر چاہے تو چار عقد کرے اور 

چالیس عورتوں سے متعہ بھی کر لے

البتہ میرے بال مجھے جہنم میں لے جائیں گے

اور مردوں کے بدن کا عطر 

انہیں بہشت میں لے جائے گا

مجھے کوئی عدالت میسر نہیں ہے

اگر میرا مرد طلاق دے تو باغیرت کہلائے

اگر میں طلاق مانگوں تو کہیں

حد سے گزر گئی، شرم کھو بیٹھی

میری بیٹی کو بیاہ کے لیے میری اجازت درکار نہیں

مگر باپ کی اجازت لازمی ہے

میں دو کام کرتی ہوں

وہ کام سے آتا ہے آرام کرتا ہے

میں کام سے آ کر پھر کام کرتی ہوں

اور اسے سکون فراہم کرنا مِرا ہی کام ہے

میں کہ ایک عورت ہوں

مرد کو حق ہے کہ مجھے دیکھیں

مگر غلطی سے اگر

مرد پر مِری نگاہ پڑ جائے

تو میں آوارہ اور کثیف خیال کہلاوں

میں ایک عورت ہوں

اپنے تمام محدود پن کے بعد بھی عورت ہوں

کیا مِری پیدائش میں کوئی غلطی تھی؟

یا وہ مقام غلط تھا جہاں میں بڑی ہوئی

میرا جسم، میرا بدن، میرا وجود

ایک اعلٰی لباس والے مرد کی سوچ اور

زبان کے چند فقروں کے نام بیع ہے

اپنی کتاب بدل ڈالوں یا سر زمین کے مردوں کی سوچ

یا کمرے کے کونے میں محبوس رہوں

میں نہیں جانتی

میں نہیں جانتی کہ کیا میں دنیا میں 

برے مقام پر پیدا ہوئی ہوں

یا برے موقعے پر پیدا ہوئی ہوں


شاہ رخ حیدری

No comments:

Post a Comment