رخ سحر تِرے رخ کی ضیاؤں جیسا ہے
جمالِ شب تِری پلکوں کی چھاؤں جیسا ہے
جو اس کی راہ میں آئے وہی بکھر جائے
وہ کوہسار کی سرکش ہواؤں جیسا ہے
لہکتا پھول، مہکتا چمن، نکھرتی بہار
جسے بھی دیکھیے تیری اداؤں جیسا ہے
میں اپنی جوشِ جنوں میں کہاں نکل آئی
یہ دشت تو میرے گھر کی فضاؤں جیسا ہے
غمِ حیات،۔ غمِ دوستی،۔ غمِ دنیا
سلوک سب کا تمہاری جفاؤں جیسا ہے
جگہ جگہ ہیں اسی بے وفا کے نقشِ قدم
ہر ایک شہر مجھے میرے گاؤں جیسا ہے
شبِ وصال بھی ہم تو بلا نہ پائے اسے
ہمارا پیار شکستہ صداؤں جیسا ہے
سلگتے ذہن کو ٹھنڈک اسی سے ملتی ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
غزالہ حشر میں کس جرم کی ملے کی سزا
کہ زندگی کا تسلسل صداؤں جیسا ہے
غزالہ تبسم خاکوانی
No comments:
Post a Comment