کرچیاں چُنتا ہوں تو حیرانی بہت ہوتی ہے
دُکھ نہیں ہوتا،۔ پیشمانی بہت ہوتی ہے
فیصلہ سخت سہی اس سے بچھڑ جانے کا
بعد ازاں، ہجر میں آسانی بہت ہوتی ہے
اکثر اوقات میں خالی ہی پڑا رہتا ہوں
بعض اوقات فراوانی بہت ہوتی ہے
میں ابھی دیکھ کے آیا ہوں ہرّے جنگل کو
سبز پیڑوں میں بھی ویرانی بہت ہوتی ہے
ان دنوں میں نظر انداز ہوا ہوتا ہوں
جن دنوں میری نگہبانی بہت ہوتی ہے
فاصلہ رکھیۓ مناسب سا خِردمندی سے
عقل آ جائے تو نادانی بہت ہوتی ہے
آپ نے زخم دیا، ہم نے سہا، کافی ہے
دیکھیۓ اتنی مہربانی بہت ہوتی ہے
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment