شیش محلوں میں بس کرچیاں رہ گئیں
گفتگو کے لیے تلخیاں رہ گئیں
اب تو پھولوں کے چہرے بھی مرجھا گئے
میری یادوں کی سب تتلیاں رہ گئیں
کوئی دالان میں، کوئی دہلیز پر
خواب بنتی ہوئی لڑکیاں رہ گئیں
جتنے بیٹے تھے پردیس میں بس گئے
اپنے بابل کے گھر بیٹیاں رہ گئیں
حسنِ اخلاقِ دفتر میں کام آ گیا
گھر میں بیٹھی ہوئی بیویاں رہ گئیں
اب مناظر بھی بے جان ہونے لگے
سانس لیتی ہوئی کھڑکیاں رہ گئیں
اب دلوں کی طرح گھر بھی خالی ہوئے
نام کی در بدر تختیاں رہ گئیں
گھر کی چھت پر کوئی آتا جاتا نہیں
منتظر منتظر سیڑیاں رہ گئیں
لوگ آئے ذرا دیر بیٹھے، گئے
شہ نشیں پر فقظ کرسیاں رہ گئیں
سوق میں سیپیوں کی بڑی مانگ تھی
ساحلوں پر پڑی سیپیاں رہ گئیں
سعدیہ سچی باتوں کو لکھتے ہوئے
زخم ہوتی ہوئی انگلیاں رہ گئیں
سعدیہ روشن
No comments:
Post a Comment