Wednesday 26 October 2022

اگر میں ذات کے زندان میں پڑا رہتا

 اگر میں ذات کے زندان میں پڑا رہتا

یقین مانو، کہ نقصان میں پڑا رہتا

خدانخواستہ ہم لوگ مل بھی جاتے اگر

میں تجھ سے ملنے کے امکان میں پڑا رہتا

مِرے وجود کی خوشبو سے لوگ جلتے تھے

وگرنہ، میں کسی گلدان میں پڑا رہتا

عجیب کیا جو تِرے ہجر میں گزاری حیات

تو کیا میں برزخ احسان میں پڑا رہتا

سو اپنے ہونے کی قیمت چُکا رہا ہوں میاں

میں بچ بھی جاتا تو میدان میں پڑا رہتا

اگر تھا جانا تو رختِ سفر میں رکھ لیتے

مِرا وجود بھی سامان میں پڑا رہتا


شہباز گردیزی

No comments:

Post a Comment