جسم سے پیپ اور خون بہتا ہوا
آبلوں کے سلیپر ہیں ہر پاؤں میں
دھوپ اوڑھے ہوئے
برف پہنے ہوئے
پھاگ آنکھوں کے چشموں سے بہتا ہوا
پیٹ فاقوں کی وجہ سے پچکا ہوا
گود میں چیختی، پیٹتی حسرتیں
درد کے آسماں
دھر کے شانوں پہ ہم
تیز تلوار سے
ظلم کی رِیت کو
کاٹنے آئے ہیں
پھر نئے عزم سے
روٹیوں کے تعاقب میں نکلے ہوئے
گرتے پڑتے ہوئے
بیکسانِ دہر
قصرِ شاہی پہ بھاری ہے دن آج کا
”آج بازار میں جشنِ افلاس ہے”
شہباز گردیزی
No comments:
Post a Comment