Wednesday, 26 October 2022

آج بازار میں جشن افلاس ہے

جسم سے پیپ اور خون بہتا ہوا

آبلوں کے سلیپر ہیں ہر پاؤں میں

دھوپ اوڑھے ہوئے

برف پہنے ہوئے

پھاگ آنکھوں کے چشموں سے بہتا ہوا

پیٹ فاقوں کی وجہ سے پچکا ہوا

گود میں چیختی، پیٹتی حسرتیں

درد کے آسماں

دھر کے شانوں پہ ہم

تیز تلوار سے

ظلم کی رِیت کو

کاٹنے آئے ہیں

پھر نئے عزم سے

روٹیوں کے تعاقب میں نکلے ہوئے

گرتے پڑتے ہوئے

بیکسانِ دہر

قصرِ شاہی پہ بھاری ہے دن آج کا

”آج بازار میں جشنِ افلاس ہے”


شہباز گردیزی

No comments:

Post a Comment