لگتا ہے جہاں موت کا بازار دن بدن
مرتا وہیں ہے حق کا پرستار دن بدن
افسوس میری قوم کا کردار دن بدن
ہو جائے نہ انا میں گرفتار دن بدن
لکھتا رہوں گا قوم کی تمہید کے لیے
اپنے جگر کے خون سے اشعاردن بدن
میری زباں کا قتل کیا جائے گا یہاں
بڑھنے لگی ثفافتی یلغار دن بدن
میں آہنی دیوار بنا قوم کے لیے
آئے ہیں میرے سر کے خریدار دن بدن
مغرب کی ہوا حسن کا بازار سجا کر
بچے کرے گی قوم کے بیمار دن بدن
جعفر خدا سے کر یہ دعا قوم کے لیے
ہم کو بچانا شر سے مددگار دن بدن
جعفر بڑھانوی
No comments:
Post a Comment