Sunday 30 October 2022

میرا نہیں رہا تو میں تیرا نہیں رہا

 میرا نہیں رہا تو میں تیرا نہیں رہا

ایفائے وعدہ کو کوئی وعدہ نہیں رہا

اشکوں سے کیسے درد کو ظاہر کریں گے ہم

آنکھوں میں اب تو ایک بھی قطرہ نہیں رہا

پہلے تو ہوتا تھا مِرا چرچا گلی گلی

شاید یہ شہرِ غیر ہے چرچا نہیں رہا

ارمان پورے ہو کے بھی جذبات رہ گئے

"کشتی ہوئی نصیب، تو دریا نہیں رہا"

اک بار میرے چاکِ گریباں پہ کر نظر

تیرا تو درکنار، میں اپنا نہیں رہا

اب مت پکار اس کو دلِ بے قرار تُو

کر لے مِرا یقین؛ وہ تیرا نہیں رہا

کیا جانے کیوں انہیں بھی کھٹکنے لگا ہوں میں

کیوں ان کے گھر میں میرا بسیرا نہیں رہا

ان کی نگاہِ ناز کا یہ بھی ہے ایک رنگ

جیسا میں پہلے رہتا تھا ویسا نہیں رہا


بشیر مہتاب

No comments:

Post a Comment