میرا نہیں رہا تو میں تیرا نہیں رہا
ایفائے وعدہ کو کوئی وعدہ نہیں رہا
اشکوں سے کیسے درد کو ظاہر کریں گے ہم
آنکھوں میں اب تو ایک بھی قطرہ نہیں رہا
پہلے تو ہوتا تھا مِرا چرچا گلی گلی
شاید یہ شہرِ غیر ہے چرچا نہیں رہا
ارمان پورے ہو کے بھی جذبات رہ گئے
"کشتی ہوئی نصیب، تو دریا نہیں رہا"
اک بار میرے چاکِ گریباں پہ کر نظر
تیرا تو درکنار، میں اپنا نہیں رہا
اب مت پکار اس کو دلِ بے قرار تُو
کر لے مِرا یقین؛ وہ تیرا نہیں رہا
کیا جانے کیوں انہیں بھی کھٹکنے لگا ہوں میں
کیوں ان کے گھر میں میرا بسیرا نہیں رہا
ان کی نگاہِ ناز کا یہ بھی ہے ایک رنگ
جیسا میں پہلے رہتا تھا ویسا نہیں رہا
بشیر مہتاب
No comments:
Post a Comment