Sunday 30 October 2022

بے بسی کا عذاب

 بے بسی کا عذاب

اداس رستوں پہ چلنے والو

اداسیوں کا سفر مقدر ہے

تم یہ رستے بدل بھی لو تو نشان منزل

تمہاری آنکھوں کی تیرگی میں

لپٹ کے بے نام ہو رہے گا

یہ شہر یہ بستیاں یہ قریے

بس ایک بے نام خوف کی زد میں آ گئے ہیں

تمہاری آنکھوں میں

کن خزاؤں کی زرد ویرانیاں بسی ہیں

تمہارے ہونٹوں پہ زہر بے رنگ کی تہیں 

کس لئے جمی ہیں

تمہارے چہروں کا خاک سا رنگ

کون سے درد کا اثر ہے

اداس رستوں پہ چلنے والو

اگر امیدوں کے پیڑ پت جھڑ کی زد میں ہیں

تو انہیں جڑوں سے اکھاڑ پھینکو

تمہاری آنکھوں میں زرد ویرانیاں بسی ہیں

تو اپنی آنکھیں نکال ڈالو

تمہارے شہروں میں خوف آسیب بن گیا ہے

تو سب مکانوں کو راکھ کر دو

مگر کبھی یوں نہ ہو سکے گا

کہ جو بنانے کی آرزو میں بگاڑتے ہیں

وہ ہاتھ ہی بے بسی کے پنجرے میں بند ہیں

ان اداس رستوں پہ چلنے والو

مجھے بھی ہمراہ لے کے چلنا

کہ میں اکیلا کہاں رہوں گا


فیض تحسین

No comments:

Post a Comment