یقیں کی راہگزر سے گزر نہ جاؤں کہیں
کسی فریب کی حد میں بکھر نہ جاؤں کہیں
میں طفلِ عشق ہوں مِرا مزاج سادہ دلی
مہیب وادئ غم میں اتر نہ جاؤں کہیں
اک آگ سے میں گزر کر یہاں تک آئی ہوں
یہ ڈر ہے راکھ کی صورت بکھر نہ جاؤں کہیں
یہ سوچ کر کہ وہ اکثر فریب دیتا ہے
میں اپنی سوچ کے لمحوں میں مر نہ جاؤں کہیں
تِری شعور کی خیر اے مِرے غرورِ حیات
میں یہ مقامِ جنوں پار کر نہ جاؤں کہیں
وہ چالباز ہے، میں باشعور ہوں پھر بھی
یقین اس کی محبت کا کر نہ جاؤں کہیں
غزالہ تبسم خاکوانی
No comments:
Post a Comment