ریال
باد شب کی گدگدی سے جسم چنچل بھی نہیں
چاندنی کی موج سے جذبوں میں ہلچل بھی نہیں
روح رجنی گندھ کی خوشبو سےجل تھل بھی نہیں
ایک وہ کومل کنواری،۔ کامنی کچی کلی
اور کس انداز سے الٹا ہے گھونگھٹ یار نے
ایک وہ سپنوں کے ہلکوروں سے ابتک اجنبی
اور کس انداز سے بدلی ہے کروٹ یار نے
فرش پر، دیوار پر، چھت پر، فضا میں، چار سو
اور کس انداز سے پھینکی ہے تلچھٹ یار نے
بستیاں کشکول کی مانند منہ کھولے ہوئے
میگھنا ململ کے بوسیدہ دوپٹے کی طرح
وادیاں منسوخ نوٹوں کی طرح ردی کے بھاؤ
شبکدے مانگے ہوئے سکوں کے بٹے کی طرح
شہر کی تزئین میں پٹرول بھی قرآن بھی
دین جویے کی طرح بیوپار سٹے کی طرح
اک نئے انداز سے الٹا ہے گھونگھٹ یار نے
اک نئے انداز سے بدلی ہے کروٹ یار نے
اک نئے انداز سے پھینکی ہے تلچھٹ یار نے
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment