Saturday, 29 October 2022

کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے

کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے

چلو سورج کے سر پر تھوڑا سایہ رکھ دیا جائے

مِرے مالک سر شاخ شجر اک پھول کی مانند

مِری بے داغ پیشانی پہ سجدہ رکھ دیا جائے

گنہ گاروں نے سوچا ہے مسلسل نیکیاں کر کے

شبِ ظلمت کے سینے پر اجالا رکھ دیا جائے

تن بے سر ہوں میرے سائے میں اب کون بیٹھے گا

درختوں میں مِرے حصے کا سایہ رکھ دیا جائے

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے

چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے

دعائیں مانگتے ہیں وہ ہمارے رزق کی خاطر

فقیروں کے لیے تھوڑا سا آٹا رکھ دیا جائے

مجھے چلنے نہیں دیں گے یہ میرے پاؤں کے چھالے

مِرے تلووں کے نیچے کوئی کانٹا رکھ دیا جائے

رواجوں کی وہ کثرت ہے کہ دم گھٹنے لگا اپنا

اٹھا کر اب رضا پارینہ قصہ رکھ دیا جائے


رضا مورانوی

No comments:

Post a Comment