جو تمہیں انجمن آرائی نظر آتی ہے
ہم کو تو اس میں بھی تنہائی نظر آتی ہے
اس لیے دل کے ہرے زخم ہوئے ہیں شاید
چشمِ احساس کو پُروائی نظر آتی ہے
آپ کے شعر میں الفاظ تو جیسے ہوں مگر
آپ کے شعر میں گہرائی نظر آتی ہے
اس لیے اور بھی سنتا ہوں انہیں غور سے میں
ان کی ہر بات میں گیرائی نظر آتی ہے
میری حالت کے فقط آپ تماشائی نہیں
ساری دنیا ہی تماشائی نظر آتی ہے
کس طرح آپ کے لہجے کی میں تعریف کروں
آپ کے جھوٹ میں سچائی نظر آتی ہے
وہ کھلی آنکھوں میں بینائی کہاں سے آئے
بند آنکھوں میں جو بینائی نہیں نظر آتی ہے
آپ محفل میں جو خاموش رہا کرتے ہیں
اس میں بھی آپ کی دانائی نظر آتی ہے
پہلے تنہائی بھی محفل کا مزا دیتی تھی
آج محفل میں بھی تنہائی نظر آتی ہے
پہلے سونا بھی ہمیں سستا نظر آتا تھا
آج پیتل پہ بھی مہنگائی نظر آتی ہے
آپ کو شعر نظر آتے ہیں لیکن مختار
ہم کو یہ قافیہ پیمائی نظر آتی ہے
مختار تلہری
No comments:
Post a Comment