Sunday, 30 October 2022

چلو ہم جھوٹ بولیں

چلو ہم جھوٹ بولیں


چلو ہم جھوٹ بولیں

بدن میں جو یہ لذت سرسراتی ہے

اسے انکار کی بھٹی میں جھونکیں

اسے انکار کی حدت سے اس حد تک جلا ڈالیں

کہ جل کر خاک ہو جائے

بدن شرمندگی سے پاک ہو جائے

کبھی لگتا ہے اس لذت کی خواہش

مار ڈالے گی

ہماری سب قبائیں پھاڑ ڈالے گی

بدن کو دیکھنا چھونا تو اک ازلی جبلت ہے

اگر یہ دوسرے کا ہو

مرے آدم کو اس ازلی جبلت نے ہی جنت سے نکالا تھا

یہ کیسی بدنصیبی ہے

ہمیں اپنے ہی اعضاء نے مصیبت ڈال رکھی ہے

انہیں دیکھیں تو گِھن آئے

مگر ہم کیا کریں منہ زور لذت کو یہی رستہ میسر ہر

ہمیں تو رستے کھلنے سے صاحب خوف آتا ہے

کہیں کوئی نہ ہم کو جان لے

یہ ڈر ستاتا ہے

چلو ہم جھوٹ بولیں


سعید ابراہیم

No comments:

Post a Comment