چلو ہم جھوٹ بولیں
چلو ہم جھوٹ بولیں
بدن میں جو یہ لذت سرسراتی ہے
اسے انکار کی بھٹی میں جھونکیں
اسے انکار کی حدت سے اس حد تک جلا ڈالیں
کہ جل کر خاک ہو جائے
بدن شرمندگی سے پاک ہو جائے
کبھی لگتا ہے اس لذت کی خواہش
مار ڈالے گی
ہماری سب قبائیں پھاڑ ڈالے گی
بدن کو دیکھنا چھونا تو اک ازلی جبلت ہے
اگر یہ دوسرے کا ہو
مرے آدم کو اس ازلی جبلت نے ہی جنت سے نکالا تھا
یہ کیسی بدنصیبی ہے
ہمیں اپنے ہی اعضاء نے مصیبت ڈال رکھی ہے
انہیں دیکھیں تو گِھن آئے
مگر ہم کیا کریں منہ زور لذت کو یہی رستہ میسر ہر
ہمیں تو رستے کھلنے سے صاحب خوف آتا ہے
کہیں کوئی نہ ہم کو جان لے
یہ ڈر ستاتا ہے
چلو ہم جھوٹ بولیں
سعید ابراہیم
No comments:
Post a Comment