سازشوں کے درمیاں سادگی ماری گئی
دشمنی کا کھیل تھا اور دوستی ماری گئی
خواہشوں کی دوڑ میں ابلیس کا تھا غلغلہ
امن کی ان وادیوں میں آشتی ماری گئی
آستیں کا سانپ تھے جو گلبدن کے بھیس میں
باغ کے ہر پھول کی پھر نازکی ماری گئی
عمر بھر کے ساتھ میں کیا جیت تھی کیا ہار تھی
جیت کر بھی فاتحوں کی سرخوشی ماری گئی
پیڑ کی جس شاخ پر تھا پنچھیوں کا گھونسلہ
معاہدے میں شاخچوں کی قامتی ماری گئی
بارگاہِ عشق میں تھی دید کی اک آرزو
حادثوں کی بھیڑ میں گل دلیری ماری گئی
گل نسرین
No comments:
Post a Comment