میں بک جاتا مجھے انکار کب تھا
یہاں پر مصر کا بازار کب تھا
ملاقاتیں بھی رسماً ہو رہی تھیں
دلوں میں جذبۂ ایثار کب تھا
میں اس کو موت سے بھی چھین لاتا
وہ جینے کے لیے تیار کب تھا
اگر کچھ حوصلہ ہوتا تو چلتے
وفا کا راستہ دشوار کب تھا
ضیا میں سارے بندھن توڑ دیتا
تمہارے واسطے انکار کب تھا
ضیا شادانی
No comments:
Post a Comment