وارفتگی
کچھ تِرے ذکر سے کچھ تزکرۂ بادہ سے
جسم یخ بستہ کو تھوڑی سی حرارت تو ملی
کچھ اشارہ تو مِلا چاک گریبانی کا
موسمِ گُل سے نمٹنے کی جسارت تو ملی
موجۂ بادِ صبا کو رگِ جاں کرنے کی
غیب سے کوچہ نوردوں کو بشارت تو ملی
روزن و در کو کُھلا رکھنے کا موسم آیا
ٹُوٹتی رات میں کب کس کا پیام آ جائے
نیم شب، چُھپتا چھپاتا ہوا سناٹے میں
کس طرف سے کوئی آوارہ خرام آ جائے
نطق کو مُہر کرو، ہونٹ کو سی کر رکھو
بارے لب پر کوئی بے ساختہ نام آ جائے
لوگ وارفتگئ شوق کی، نالہ ہو کہ شعر
آج بھی شہر میں سنگین سزا دیتے ہیں
اور، منصور کی مانند، فقیہان کرام
ایک پیمبر کو بھی سُولی پر چڑھا دیتے ہیں
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment