فکروں کا ناگ ذہن کے آنگن میں آ گیا
خوابوں کی انجمن کو تماشہ بنا گیا
بے کیف زندگی کو وہ ایسے سجا گیا
تصویر میرے کمرے میں اپنی لگا گیا
بادل گزشتہ یادوں کا جب دل پہ چھا گیا
دشتِ غمِ حیات میں سیلاب آ گیا
خود جس نے ایک لمحہ نہ پایا سکون کا
ہم کو سلامتی کی وہ دے کر دعا گیا
شاید مِری زبان کی تاثیر اڑ گئی
بچہ بھی میری بات ہنسی میں اڑا گیا
گھبرا گیا تھا شہر کے ماحول سے غریب
"دستک دئیے بغیر مِرے گھر میں آ گیا"
فتنہ ضرور تھا وہ مگر بے قصور تھا
مجرم ہے وہ جو سوتے سے اس کو جگا گیا
مختار آ ج شہر میں وہ گرم تھی ہوا
ماحول دیکھتے ہی خدا یاد آ گیا
مختار تلہری
No comments:
Post a Comment