آہیں دیوار بے اثر خالی
اک شخص کے بعد ہے گھر خالی
شہر کی رونقوں سے کیا لینا
یار سے جب ملا شہر خالی
اس کے ہاتھوں میں ہاتھ میرا ہو
اب نہ ہو کوئی بھی پہر خالی
اک چلی گولی پرندوں پر
اور ہو گیا پھر شجر خالی
بات سچی ہی کام آئے گی
جھوٹ رہتا ہے بے اثر خالی
ہل چلا کے کسان افسردہ
پھر زمیں کیوں ہے بے ثمر خالی
طے ہوا تھا نہیں بولنا راہ میں
پوچھنے سے ہوا صبر خالی
ابرار نجمی
No comments:
Post a Comment