Saturday, 29 October 2022

آہیں دیوار بے اثر خالی

 آہیں دیوار بے اثر خالی

اک شخص کے بعد ہے گھر خالی

شہر کی رونقوں سے کیا لینا

یار سے جب ملا شہر خالی

اس کے ہاتھوں میں ہاتھ میرا ہو

اب نہ ہو کوئی بھی پہر خالی

اک چلی گولی پرندوں پر

اور ہو گیا پھر شجر خالی

بات سچی ہی کام آئے گی

جھوٹ رہتا ہے بے اثر خالی

ہل چلا کے کسان افسردہ

پھر زمیں کیوں ہے بے ثمر خالی

طے ہوا تھا نہیں بولنا راہ میں

پوچھنے سے ہوا صبر خالی


ابرار نجمی

No comments:

Post a Comment