کرکٹ میچ
بیزار ہو گئے تھے جو شاعر حیات سے
کرکٹ کا میچ کھیل لیا شاعرات سے
واقف نہ تھے جو دوستو! عورت کی ذات سے
چوکے لگا رہے تھے خیالوں میں رات سے
آئی جو صبح شام کے نقشے بگڑ گئے
سروں سے ہم غریبوں کے اسٹمپ اکھڑ گئے
ناز و ادا و حسن نے جادو جگا دئیے
پہلے تو اوپنر کے ہی چھکے چھڑا دئیے
ون ڈاؤن پہ جو آئے تو اسٹمپ اڑا دئیے
راہ فرار کے بھی تو رستے بھلا دئیے
گو کیچ ویری لو تھا مگر بے دھڑک لیا
اک محترم کو اک نے گلی میں لپک لیا
کیا کیا بیان کیجیے اک اک کا بانکپن
جلوہ فگن زمیں پہ تھی تاروں کی انجمن
حسن و شباب و عشق سے بھرپور ہر بدن
شاعر پویلین میں تھے پہنے ہوئے کفن
جتنی تھیں بیوٹی فل وہ سلپ پر گلی پہ تھیں
جتنی تھیں اوور ایج سبھی باؤنڈری پہ تھیں
پریوں کے جس طرح سے پرے کوہ قاف پر
اک لانگ آن پر تھی تو اک لانگ آف پر
اک تھی کور میں ایک حسینہ مڈ آف پر
جو شارٹ پچ تھی گیند وہ آتی تھی ناف پر
ٹھہرے نہ وہ کریز پہ جو تھے بڑے بڑے
مجھ جیسے ٹیم ٹام تو وکٹوں پہ پھٹ پڑے
وہ لال گیند پھول ہو جیسے گلاب کا
جس طرح دست ناز میں ساغر شراب کا
سایہ ہوا میں ناچتا تھا آفتاب کا
بمپر میں سارا زور تھا حسن و شباب کا
ایسے بھی اپنے عشق کا میداں بناتے تھے
امپائر ہر اپیل پر انگلی اٹھاتے تھے
جب بال پھینکتی تھی وہ گیسو سنوار کے
نزدیک اور ہوتے تھے حالات ہار کے
کہتے تھے میچ دیکھنے والے پکار کے
استاد جا رہے ہیں شب غم گزار کے
استاد کہہ رہے تھے کہ پھٹکار میچ پر
دو دو جھپٹ رہی ہیں شریفوں کے کیچ پر
ساغر خیامی
No comments:
Post a Comment