بادباں ہوا کا یوں توڑ کر نکل گیا
چھوڑ کر بھنور میں وہ رستہ بدل گیا
بستیاں بھی ڈر گئیں ساحلوں کے ساتھ ہی
آنکھ میں پڑا ہوا اشک جو اچھل گیا
نقش اب کیا ابھرتے مِرے کوزہ گرو
چاک پر دھرا ہوا ڈھیر جو بدل گیا
تیرگی اماوسوں کے شجر میں ڈھل گئی
چاند پر زمیں کا چرخ تھا وہ جل گیا
محو تھا امیر جو رقص میں سرور میں
پیر کے تلے کوئی ناتواں کچل گیا
اژدہوں کے کھیل میں جیت کر بھی کیا ہوا
سانپ تو نشے میں اپنا ہی نر نگل گیا
چیختی رہی ہوا، اور ننھی بلبلیں
کاٹتا شجر سبھی جو محکمہ اجل گیا
گل نسرین
No comments:
Post a Comment