Wednesday 26 October 2022

بادباں ہوا کا یوں توڑ کر نکل گیا

 بادباں ہوا کا یوں توڑ کر نکل گیا

چھوڑ کر بھنور میں وہ رستہ بدل گیا

بستیاں بھی ڈر گئیں ساحلوں کے ساتھ ہی

آنکھ میں پڑا ہوا اشک جو اچھل گیا

نقش اب کیا ابھرتے مِرے کوزہ گرو

چاک پر دھرا ہوا ڈھیر جو بدل گیا

تیرگی اماوسوں کے شجر میں ڈھل گئی

چاند پر زمیں کا چرخ تھا وہ جل گیا

محو تھا امیر جو رقص میں سرور میں

پیر کے تلے کوئی ناتواں کچل گیا

اژدہوں کے کھیل میں جیت کر بھی کیا ہوا

سانپ تو نشے میں اپنا ہی نر نگل گیا

چیختی رہی ہوا، اور ننھی بلبلیں

کاٹتا شجر سبھی جو محکمہ اجل گیا


گل نسرین

No comments:

Post a Comment