Tuesday 25 October 2022

پوچھا میرا نام جہاں تنہائی نے

 پوچھا میرا نام جہاں تنہائی نے

چھایا لکھ دی چہرے پہ گہرائی نے

اس دن سے کپڑوں کا احساں ہے تن پر

مجھے چُھوا تھا جس دن بوڑھی دائی نے

مٹی چُھو کر ہرا بھرا پودا نکلا

پربت کو بھی آنکھ دکھائی رائی نے

لوگوں نے کیوں اس کو میری ذات کہا

چہرے پر جو نام لکھا رُسوائی نے

بیوی بچے طعنے شکوے فرمائش

گھر آنگن ڈیرا ڈالا مہنگائی نے

اس دن بستر چھوڑا پاگل آشا نے

دھوپ لکھی جب کمروں میں انگنائی نے

بادل تھا تو امبر امبر پھرتا تھا

بوند بنا تو مانگا گہری کھائی نے

ایسی کوئی انہونی بتلا پرواز

بہتا پانی روک لیا ہو کائی نے


نصیر پرواز

No comments:

Post a Comment