نام اس کا لے کر کہتی ہے
اب وہ اس کو بھول چکی ہے
ایک کہانی اس نے سنائی
ایک غزل میں نے لکھی ہے
وقت کی سانسیں تھم جاتی ہیں
ساتھ مِرے جب وہ چلتی ہے
اس کو غم ہے اور کسی کا
پاس مِرے آ کے روتی ہے
وقت کے ہاتھ آنے کی ہے دیری
حسن تِرا بھی اک تتلی ہے
جس سے تیری خوشبو آئے
ایک غزل ایسی کہنی ہے
اس دھرتی کی چیز نہیں وہ
چاند ستاروں سےملتی ہے
عشق کی آتش بھڑکا دے گی
حسن کی وہ جلتی تیلی ہے
روز کہاں ایسا نظارہ
قوسِ قزاح کے وہ جیسی ہے
ہم کو ستائش کی نہیں خواہش
داد مگر اس سے لینی ہے
عمران کمال
No comments:
Post a Comment