Friday, 28 October 2022

نام اس کا لے کر کہتی ہے

 نام اس کا لے کر کہتی ہے

اب وہ اس کو بھول چکی ہے

ایک کہانی اس نے سنائی

ایک غزل میں نے لکھی ہے

وقت کی سانسیں تھم جاتی ہیں

ساتھ مِرے جب وہ چلتی ہے

اس کو غم ہے اور کسی کا

پاس مِرے آ کے روتی ہے

وقت کے ہاتھ آنے کی ہے دیری

حسن تِرا بھی اک تتلی ہے

جس سے تیری خوشبو آئے

ایک غزل ایسی کہنی ہے

اس دھرتی کی چیز نہیں وہ

چاند ستاروں سےملتی ہے

عشق کی آتش بھڑکا دے گی

حسن کی وہ جلتی تیلی ہے

روز کہاں ایسا نظارہ

قوسِ قزاح کے وہ جیسی ہے

ہم کو ستائش کی نہیں خواہش

داد مگر اس سے لینی ہے


عمران کمال

No comments:

Post a Comment