Monday 31 October 2022

ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں

 ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں

دل کے جنگل یوں ہی بستے ہیں اُجڑ جاتے ہیں

کیسے خوشرنگ ہوں خوش ذائقہ پھل ہوں، لیکن

وقت پر چکھے نہیں جائیں تو سڑ جاتے ہیں

اپنے لفظوں کے تأثر کا ذرا دھیان رہے

حاکمِ شہر کبھی لوگ بھی اڑ جاتے ہیں

ریت تاریخ کے سینے میں ہٹاتے ہیں وہی

آبلے پیاسی زبانوں میں جو پڑ جاتے ہیں

ایسے کچھ ہاتھ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے کنگن

توڑنے والے کے احساس میں گڑ جاتے ہیں

شبنم انداز تکلم میں کشش لازم ہے

ورنہ الفاظ سمٹتے ہیں سُکڑ جاتے ہیں


رفیعہ شبنم عابدی

No comments:

Post a Comment