مرے وطن
حسیں رُتوں کی تِرے نام یہ بہار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
٭
ترے علم کو خمیدہ کبھی نہ ہونے دوں
اسے بلندی پہ رکھنا مری عبادت ہے
لٹا دوں جان میں تجھ پر، نہ آنچ آنے دوں
وطن کی آن پہ مرنا بھی اک شہادت ہے
ہزار بار جو مانگے ہزار بار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
٭
سبھی کا ظرف جدا ہے، سبھی کی بات جدا
کسی کو کوزے سے نسبت کسی کو چاک سے ہے
مِرے خمیر میں عنصر ہے تیری مٹی کا
مجھے تو جو بھی ہے نسبت وہ تیری خاک سے ہے
لہو سے سینچ کے میں تجھ کو لالہ زار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
٭
بڑے کٹھن تھے وفاؤں کے امتحان یہاں
کہیں صلیب سجی تھی کہیں پہ دار و رسن
یونہی نہیں ہے تو باغ جناں کے مثل حسین
لہو سے دھوکے نکھارا گیا تھا تیرا بدن
تِرے جیالوں کی راہیں میں اختیار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
٭
خدا کی رحمتیں سایہ فگن رہیں تجھ پر
ہر ایک رت میں بہاریں تجھے سلامی دیں
تِرا وقار جہاں میں بلند ہو اتنا
کہ کہکشائیں تجھے شرف ہمکلامی دیں
میں جان و دل سے بھی زیادہ تجھی کو پیار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
ثمریاب ثمر
ثمر سہارنپوری
No comments:
Post a Comment