دیکھ ذرا اقوامِ عالم
بہتا تو کشمیر میں خون
دیکھ تو جلتے، بجھتے منظر
پاؤں کی زنجیر میں خون
جنت جیسی اس وادی کو
ظلم نے یوں برباد کیا
چاند ہوا ہے جگنو جیسا
جگنو ٹھہرا ایک دِیا
لوگ جلائیں کب تک دل کا
اس بجھتی تنویر میں خون
دیکھ ذرا اقوامِ عالم
بہتا تو کشمیر میں خون
پھولوں جیسے کِھلتے چہرے
پیکر، رنگ اور خوشبو کے
خاک میں مل کر خاک ہوئے ہیں
منظر رنگ اور خوشبو کے
چھلک رہا ہے قریہ قریہ
موسم کی تصویر میں خون
دیکھ ذرا اقوامِ عالم
بہتا تو کشمیر میں خون
کہساروں میں ڈھیر لگے ہیں لاشوں کے
جسم پروئے تلواروں میں
دیکھ جفا کے تیر میں خون
طوق ستم کے کب ٹوٹیں گے
سُنو گے کب فریاد
کب آزادی ان کو ملے گی
کب ہوں گے آزاد
کب تک یوں ہی لکھا رہے گا
ان سب کی تقدیر میں خون
دیکھ ذرا اقوامِ عالم
بہتا تو کشمیر میں خون
نبیل احمد
No comments:
Post a Comment