Saturday, 29 October 2022

شہر میں اب سانس لینے کے نہیں قابل ہوا

 شہر میں اب سانس لینے کے نہیں قابل ہوا

چل رہی ہے زہر میں ڈوبی ہوئی قاتل ہوا

کر نہیں سکتا جسارت اس قدر تنہا چراغ

پُھونکنے کو گھر مِرا شاید ہوئی شامل ہوا

دیکھ کر سُرخی لہو کی پتے پتے پر یہاں

ڈوب کر حیرت میں اکثر تھم گئی جھلمل ہوا

رفتہ رفتہ کر رہی ہے حق روی کا سر قلم

جب سے داخل بستیوں میں ہو گئی باطل ہوا

ایک مدت تک لڑی ہے حبس میں بارود سے

تب کہیں جا کر ہوئی اس نسل کو حاصل ہوا

تند لہروں کا ہمیشہ کشتیوں سے بیر ہے

نا خدا، تیرے لیے بنتی کہاں ساحل ہوا

مانگتا ہے خیر بس مفلس در و دیوار کی

جھونپڑی میں خوف کی ہونے لگی داخل ہوا

جسم پر جس کے چلائی تھیں ہزاروں آریاں

مر رہی ہے ریگزاروں میں وہی تل تل ہوا

علم لفظوں کا، نہ معلومات فنِ شعر کی

باندھے پھرتے ہیں ہر اک تقریب میں جاہل ہوا


پرویز مانوس

No comments:

Post a Comment