شہر میں اب سانس لینے کے نہیں قابل ہوا
چل رہی ہے زہر میں ڈوبی ہوئی قاتل ہوا
کر نہیں سکتا جسارت اس قدر تنہا چراغ
پُھونکنے کو گھر مِرا شاید ہوئی شامل ہوا
دیکھ کر سُرخی لہو کی پتے پتے پر یہاں
ڈوب کر حیرت میں اکثر تھم گئی جھلمل ہوا
رفتہ رفتہ کر رہی ہے حق روی کا سر قلم
جب سے داخل بستیوں میں ہو گئی باطل ہوا
ایک مدت تک لڑی ہے حبس میں بارود سے
تب کہیں جا کر ہوئی اس نسل کو حاصل ہوا
تند لہروں کا ہمیشہ کشتیوں سے بیر ہے
نا خدا، تیرے لیے بنتی کہاں ساحل ہوا
مانگتا ہے خیر بس مفلس در و دیوار کی
جھونپڑی میں خوف کی ہونے لگی داخل ہوا
جسم پر جس کے چلائی تھیں ہزاروں آریاں
مر رہی ہے ریگزاروں میں وہی تل تل ہوا
علم لفظوں کا، نہ معلومات فنِ شعر کی
باندھے پھرتے ہیں ہر اک تقریب میں جاہل ہوا
پرویز مانوس
No comments:
Post a Comment