درونِ ذات کا منظر زمانے پر نہیں کھولا
بسر اک رات کرنی ہے ابھی بستر نہیں کھولا
مسافر ہوں میں بھوکا ہوں صدائیں دیں بہت لیکن
دریچے کھول کر دیکھے کسی نے گھر نہیں کھولا
میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لیے مولا نڈر ہو کر
کہ جب مانگا مِرے اعمال کا دفتر نہیں کھولا
یہاں تو ہُو کا عالم ہے یہاں آسیب بستے ہیں
مقفل ہے کئی برسوں سے دل کا در نہیں کھولا
تماشا بن گیا آزاد ہو کر سب کی نظروں میں
قفس کھولا مگر صیاد تُو نے پر نہیں کھولا
پسِ دیوار تیری یاد میں روئے بہت لیکن
سرِ بازار ہم نے یار اپنا سر نہیں کھولا
اقبال طارق
No comments:
Post a Comment