Monday 31 October 2022

دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا

 دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا 

موند لی جب آنکھ تو سینے سے کوئی آ لگا 

کس قدر اپنائیت اس اجنبی بستی میں تھی 

گو کہ ہر چہرہ تھا بے گانہ مگر اپنا لگا 

پاس سے ہو کر جو وہ جاتا تو خوش ہوتے مگر 

اس کا کترا کر گزرنا بھی ہمیں اچھا لگا 

اس گھڑی کیا کیفیت دل کی تھی کچھ ہم بھی سنیں 

تُو نے پہلی بار جب دیکھا ہمیں کیسا لگا 

جس قدر گنجان آبادی تھی اس کے شہر کی 

جانے کیوں ہر شخص ہم کو اس قدر تنہا لگا 

جسم کا آتش کدہ لے کر تو پہنچے تھے وہاں 

ہاتھ جب اس کا چھوا تو برف سے ٹھنڈا لگا 

جب کسی شیریں دہن سے گفتگو کی اے قمر 

اپنا لہجہ بھی ہمیں اس کی طرح میٹھا لگا


قمر اقبال

No comments:

Post a Comment