دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا
موند لی جب آنکھ تو سینے سے کوئی آ لگا
کس قدر اپنائیت اس اجنبی بستی میں تھی
گو کہ ہر چہرہ تھا بے گانہ مگر اپنا لگا
پاس سے ہو کر جو وہ جاتا تو خوش ہوتے مگر
اس کا کترا کر گزرنا بھی ہمیں اچھا لگا
اس گھڑی کیا کیفیت دل کی تھی کچھ ہم بھی سنیں
تُو نے پہلی بار جب دیکھا ہمیں کیسا لگا
جس قدر گنجان آبادی تھی اس کے شہر کی
جانے کیوں ہر شخص ہم کو اس قدر تنہا لگا
جسم کا آتش کدہ لے کر تو پہنچے تھے وہاں
ہاتھ جب اس کا چھوا تو برف سے ٹھنڈا لگا
جب کسی شیریں دہن سے گفتگو کی اے قمر
اپنا لہجہ بھی ہمیں اس کی طرح میٹھا لگا
قمر اقبال
No comments:
Post a Comment