Thursday, 27 October 2022

یہ رگ و ریشہ و انفاس میں بستی ہوئی رات

 حصارِ دعا


یہ رگ و ریشہ و انفاس میں بستی ہوئی رات

اس کو اک دورِ دل آزار کی قیمت سمجھو

یہ بھٹکتے ہوئے رہگیر کو ڈستی ہوئی رات

منطقی طور سے اس کو مشیت سمجھو

کی، چلو قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ایسے حالات میں، اس کو ہی غنیمت سمجھو

یہ رگ و ریشہ و انفاس میں بستی ہوئی رات

یہ بھٹکتے ہوئے رہگیر کو ڈستی ہوئی رات

عصر کے جسم پر سو جا سے مسکتی ہوئی رات

رات مسکی ہے تو پھر اس کی طرف روئے سخن

اس کے اعضا کی لچک اس کے بدن کا صندل

رات مسکی ہے تو خلوت میں وہی پھر ذ کر قدیم

اس کے ہاتھوں کی حنا، اس کی مژہ کا کاجل

اس کی یادوں سے رگ و پے میں تموج پرپا

اس کی یادوں سے دل سست رواں میں ہلچل

رات مسکی ہے تو آنکھوں میں کرن کی تحریک

رات مسکی ہے تو احساس میں اک رد و بدل

رات مسکی ہے تو پھر شعر و سخن کی باتیں

بحر کی، وزن کی، اسلوب کی، فن کی باتیں

ذ کر احبابِ وطن اور وطن کی باتیں

چاند ہو، زہرہ ہو، مریخ ہو، بنگال کے سندھ

پاؤں سے خاک رمیدہ ہے جہاں بھی رہيۓ

شنگریلا ہو کہ کاغان کہ رانگا ماٹی

بادِ جان بخش تپیدہ ہے جہاں بھی رہیۓ

زندگی صرف دعاؤں پہ اگر ہے موقوف

آسماں سر پہ کشیدہ ہے جہاں بھی رہیۓ


نوشاد نوری

No comments:

Post a Comment